Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid125


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  125
حمص پر خوف وہراس طاری تھا۔ وہ اس وقت بھگدڑ اور نفسانفسی کی صورت اختیار کر گیا جب مسلمان حمص میں داخل ہوئے تھے۔انہوں نے سنا تو یہی تھا کہ مسلمان شہریوں کو پریشان نہیں کرتے ہیں لیکن جس شہر کی فوج ہتھیار نہ ڈالے اور مسلمان بزور شمشیر شہر کو فتح کریں تو وہ ہر گھر سے مال و اموال اٹھا لیتے ہیں اور عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتے ہیں۔
مسلمانوں نے حمص تو بڑی ہی مشکل سے فتح کیا تھا۔ رومیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے بلکہ مسلمانوں نے محاصرہ اٹھایا تو پانچ ہزار سوار رومی ان کے تعاقب میں گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ محاصرہ اٹھانا مسلمانوں کی چال تھی لیکن رومیوں نے اسے ان کی کمزوری سمجھ کر ان پر حملہ کیا تھا۔ اس معرکے میں رومیوں کے صرف ایک سو سوار زندہ بچے تھے اور مسلمان جو شہید ہوئے ان کی تعداد ۲۳۵ تھی۔
اتنی خونریز لڑائی لڑ کر مسلمانوں نے حمص کو فتح کیا تھا ۔حمص والوں نے جب یہ دیکھا کہ ان کے وہ پانچ ہزار سوار مسلمانوں کے تعاقب میں گئے تھے ان میں سے بہت تھوڑے بھاگتے ہوئے واپس آرہے ہیں تو ان پر خوف و ہراس طاری ہو گیا تھا اور جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کا ایک سوار دستہ رومیوں اور حمص کے دروازوں کے درمیان آگیا ہے اور رومی سوار نہ بھاگ سکتے ہیں نہ شہر میں داخل ہو سکتے ہیں تو وہ اور زیادہ خوفزدہ ہو گئے۔ شہر میں اتنی فوج نہیں رہ گئی تھی جو ان کی مدد کو پہنچتی۔ یہ سوار مسلمان سواروں کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ گئے۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ جب حمص میں داخل ہوئے تو چند ایک شہری ان کے استقبال کیلئے کھڑے تھے ۔ دونوں مسلمان سالاروں کو دیکھ کر وہ سجدے میں گر پڑے۔ دونوں سالاروں نے گھوڑے روک لیے۔
’’اٹھو!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے گرجدار آواز میں کہا۔ … ’’کھڑے ہو جاؤ۔‘‘
وہ سب سجدے سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ان سب کے چہروں پر خوف و ہراس اور رحم طلبی کا گہرا تاثر تھا۔
’’بولو!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔ … ’’اگر تمہاری فوج ہمارے کہنے پر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتی تو تمہیں ہمارے آگے سجدہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔‘‘
’’ہم رحم کے طلب گار ہیں!‘‘ … ایک نے التجا کی۔ … ’’وہ رومی فوج تھی جو آپ سے لڑی ہے، ہم رومی نہیں۔ ہم آپ کا ہر مطالبہ پورا کریں گے۔‘‘
’’ہم صرف یہ بتانے کیلئے آئے ہیں کہ سجدہ صرف اﷲ کے آگے کیا جاتا ہے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ہم کسی کو اپنا غلام بنانے نہیں آئے ہیں۔‘‘
ابو عبیدہؓ کے حکم سے حمص کے لوگوں سے صرف ایک دینار فی کس جزیہ لیا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے اعلان ہوا کہ کوئی شخص شہر چھوڑ کر نہ جائے، شہر کے لوگوں کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔
اس اعلان نے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ بعض اسے مسلمانوں کی ایک چال سمجھے۔ وہ رات بھر اس خوف سے جاگتے رہے کہ مسلمان رات کو ان کے گھروں پر ٹوٹ پڑیں گے لیکن رات گزر گئی اور کچھ بھی نہیں ہوا۔
…………bnb…………

رومی شہنشاہ ہرقل حمص سے تقریباً اسّی میل دور انطاکیہ میں تھا۔اسے جب خبر ملی کہ حمص بھی ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کے ہونٹوں پرہلکا سا تبسم آگیا جیسے وہ اسی خبر کا منتظر تھا۔ اس کے سالار مشیر اور شاہی خاندان کے افراد یہ جانتے تھے کہ ہرقل کا یہ تبسم موت کی مسکراہٹ ہے اور اس تبسم میں قہر بھرا ہوا ہے۔
’’کیا تم یہ بتا سکتے ہو کہ عرب کے ان مسلمانوں نے حمص کس طرح لیا ہے؟‘‘ … ہرقل نے خبر لانے والے سے پوچھا۔… ’’تم سالار تو نہیں، کماندار ہو، جنگ کو سمجھتے ہو گے … تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’سب سمجھتا ہوں قیصرِ روم!‘‘ … خبر لانے والے نے کہا۔ … ’’میرا نام سازیرس ہے، ایک جیش کا کماندار ہوں … حمص اک دھوکے نے ہم سے چھینا ہے۔ ہمارے سالاروں کو توقع تھی کہ مسلمان اتنی سردی برداشت نہیں کر سکیں گے اور محاصرہ اٹھا کر چلے جائیں گے، انہوں نے سردی کی شدت محاصرے میں گزار دی اور محاصرہ اس وقت اٹھا کر چلے گئے جب سردی کی شدت گزر گئی تھی اور درختوں کی کونپلیں پھوٹنے لگی تھیں۔‘‘
’’اور ہمارے سالار اس وقت قلعے میں بیٹھے رہے، جب دشمن باہر سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’ہمارے سالار دشمن پر اس وقت نہ جھپٹے جب سردی نے ان کی رگوں میں خون منجمد کر دیا تھا … پھر کیا ہوا؟‘‘
’’قیصرِ روم!‘‘ … سازیرس نے کہا۔ … ’’جب وہ کوچ کر گئے تو سالار ہربیس نے پانچ ہزار سواروں کے ایک دستے کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے تعاقب میں جاؤ اور ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہ رہے … ہم ان کے تعاقب میں گئے۔ جب ہم ان کے قریب گئے تو انہوں نے پلٹ کر ہمیں گھیرے میں لے لیا۔‘‘ … سازیرس نے ہرقل کو تفصیل سے بتایا کہ مسلمانوں نے انہیں کس طرح گھیرے میں لیا اور ان کے سواروں کو تباہ و برباد کر دیا۔
’’ہمارا سالار ہربیس کہاں ہے؟‘‘ … ہرقل نے پوچھا۔’’کیا وہ…‘‘
’’وہ زندہ ہیں۔‘‘ … سازیرس نے کہا۔ … ’’وہ اس وقت وہاں سے نکل گئے تھے جب مسلمانوں کے سالار خالدبن ولید نے ہمارے ایک پہلوان کو اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا تھا اور پہلوان کی آنکھیں باہر آگئی تھیں۔‘‘
’’کیا ہمارے پہلوان کو خالد بن ولید نے مار ڈالا ہے؟‘‘ … ہرقل نے پوچھا۔
سازیرس کچھ دیر ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا، پھر اس نے دائیں بائیں آہستہ آہستہ سر ہلایا۔
’’مسلمان سالار نے ہمارے پہلوان کو بازوؤں میں دبوچ کر اس کی پسلیاں توڑ ڈالی تھیں۔‘‘ … سازیرس نے کہا۔ … ’’اور وہ مر گیا۔‘‘
’’آفرین!‘‘ … ہرقل کے ہونٹوں سے سرگوشی پھسل گئی۔ … ’’یہ طاقت جسم کی نہیں۔‘‘ … وہ اچانک جیسے بیدار ہو گیا ہو۔ اس نے جاندار آواز میں کہا۔ … ’’میں انہیں کچل دوں گا … انہیں آگے آنے دو۔‘‘ … اس کی آواز اور زیادہ بلند ہو گئی۔ … ’’انہیں اور آگے آنے دو … اور آگے جہاں سے وہ بھاگ نہیں سکیں گے۔‘‘
…………bnb…………

سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اور آگے چلے گئے تھے، انہوں نے حمص کے انتظامات کیے۔ کچھ نفری وہاں چھوڑ دی تھی۔ حمص سے وہ اپنے دستوں کے ساتھ حمص سے آگے حما پھر اس سے آگے شیرز تک جا پہنچے تھے۔ وہاں سے انطاکیہ کا فاصلہ پینتیس چالیس میل کے درمیان تھا۔ انطاکیہ اہم ترین مقام تھا کیونکہ اسے ہرقل نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا یا تھا، اور وہیں رومیوں کی فوج کا اجتماع اور فوج کی تقسیم ہوتی تھی۔
مسلمانوں نے شیرز سے کوچ کیا، تھوڑی ہی دور گئے ہوں گے کہ رومیوں کا ایک قافلہ سا آتا نظر آیا۔ اس کی حفاظت کیلئے رومی فوجیوں کا ایک چھوٹا سا دستہ تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اونٹوں اور گاڑیوں کے اس قافلے میں فوجی سامان جا رہا ہے۔ خالدؓ کے اشارے پر مجاہدین نے قافلے کو گھیرے میں لے لیا۔ رومی فوجیوں نے مقابلہ کرنے کی حماقت نہ کی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ فوج کے کھانے پینے کا سامان ہے۔ اس میں ہتھیار بھی تھے۔ ان سب کو پکڑ لیا گیا اور انہیں یہ تاثر دیا گیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔
’’ہم نے آپ کا مقابلہ نہیں کیا۔‘‘ … اس رومی فوجی قافلے کے کماندار نے جان بخشی کی التجا کرتے ہوئے کہا۔ … ’’ہم رومی نہیں، ہم تو رعایا ہیں۔ہماری آپ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔‘‘
’’پھر دوستی کا ثبوت دو۔‘‘ … انہیں کہا گیا۔ … ’’یہ بتا دو کہ انطاکیہ میں کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’آپ کی تباہی کا سامان تیار ہو رہا ہے۔‘‘ … قافلے کے کماندار نے جواب دیا۔ … ’’وہاں بہت بڑی فوج اکٹھی کی جا رہی ہے۔ دور دور سے عیسائی قبیلے آپ کے مخالف لڑنے کیلئے جمع ہو رہے ہیں اور انہیں میدانِ جنگ میں لڑنے کے ڈھنگ سکھائے جا رہے ہیں۔‘‘
’’آپ نے ہماری جانیں ہمیں واپس کر دی ہیں تو ہم آپ کی جانیں بچاتے ہیں۔‘‘ … قافلے کے ایک اور آدمی نے کہا۔ … ’’آپ آگے نہ جائیں۔ آپ کی نفری بہت تھوڑی ہے اور انطاکیہ میں شہنشاہ ہرقل جو فوج اکٹھی کر چکا ہے وہ اتنی زیادہ ہے کہ آپ کا ایک آدمی بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
’’کیا اتنی زیادہ شکستوں نے اس کی کمر ابھی توڑی نہیں؟‘‘ … مسلمانوں کے ایک سالار نے پوچھا۔
’’ہم اتنے بڑے لوگ نہیں کہ شہنشاہ تک رسائی حاصل کر سکیں۔‘‘ … رومیوں کے کماندار نے کہا۔ … ’’ہم اس کے ساتھ بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتے لیکن اپنے سالاروں سے جو پتا چلتا ہے وہ آپ کو بتاتے ہیں … ہرقل کی کمر اتنی کمزور نہیں کہ چند ایک شکستوں سے ٹوٹ جائے۔ اس نے اپنا دماغ اپنے ہاتھ میں رکھا ہو اہے۔ اسے فتح حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے اوپر اس کا نشہ طاری نہیں ہونے دیتا اور شکست سے وہ مایوس نہیں ہواکرتا۔ وہ جو حسین ترین اور نوجوان لڑکیوں اور شراب کا رسیا ہے، اب شراب تو پیتا ہو گا لیکن اپنی پسندیدہ لڑکیوں کو بھی اپنے سامنے نہیں آنے دیتا۔‘‘
’’وہ تو شاید راتوں کو سوتا بھی نہیں ہوگا۔‘‘ … دوسرے نے کہا۔ … ’’اس پر ایک جنون سا سوار ہے۔ فوج اکٹھی کرو۔ اس کے آدمی بستی بستی جا کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ مسلمان طوفان کی طرح آرہے ہیں اور وہ تمہارے مذہب کو اور تہاری عورتوں کو اپنے ساتھ اڑا لے جائیں گے … لوگ قبیلہ در قبیلہ مذہب کے نام پر اور اپنی عورتوں کو مسلمانوں سے بچانے کی خاطر انطاکیہ میں آرہے ہیں۔ آپ نے آگے جانا ہے تو زیادہ فوج لے کر آئیں ورنہ رک جائیں … اب شہنشاہ ہرقل زیادہ وقت نئی فوج کی تنظیم اور تربیت میں گزارتا ہے اور کہتا ہے کہ مسلمانوں کو آگے آنے دو۔انہیں اور آگے آنے دو۔‘‘
’’اس نے یہ بھی کہا ہے۔‘‘ … ایک اور بولا۔ … ’’اب میری فوج کی پسپائی میرے دل کو مضبوط کرتی ہے۔ میری فوج کی ہر پسپائی عرب کے ان مسلمانوں کو میرے جال میں لا رہی ہے۔‘‘
…………bnb…………

اس قافلے سے جو صورتِ حال ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو معلوم ہوئی وہ غلط نہیں تھی ۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہرقل روائتی شہنشاہ نہیں تھا۔ وہ اپنے وقت کا فنِ حرب و ضرب کا ماہر جنگجو تھا اور وہ میدانِ جنگ کا شاطر جرنیل تھا۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کو ان اطلاعات نے جو انہیں اس قافلے سے ملیں ، وہیں رکنے پرمجبور کر دیا۔
’’خدا کی قسم امین الامت!‘‘ … خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔ … ’’ہم یہاں بیٹھے نہیں رہیں گے اور ہم ہرقل کو اتنی مہلت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی تیاریاں مکمل کرلے۔‘‘
’’آج رات تک اپنے کسی آدمی کو آجانا چاہیے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ابو سلیمان! جب تک آگے کی مصدقہ صورتِ حال معلوم نہیں ہو جاتی ہم آگے نہیں جائیں گے۔‘‘
اپنے کسی آدمی سے مراد وہ جاسوس تھے جو انطاکیہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ خالدؓ نے اپنی سپہ سالاری کے دور میں جاسوسی کے نظام کو باقاعدہ اور منظم کر دیاتھا اور جاسوسوں کو دور دور تک پھیلا دیا تھا۔ مسلمان جاسوس جان کی بازی لگا کر بڑی قیمتی معلومات لے آتے تھے۔
مؤرخوں کے مطابق، ہرقل نے اپنی فوج کی پے در پے شکستوں کی خبریں سن سن کر اس حقیقت کو قبول کر لیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو بکھری ہوئی لڑائیوں میں شکست نہیں دے سکتا۔ایک شکستیں تو وہ تھیں جو رومی فوج کو خالدؓ پھر ابو عبیدہؓ نے دی تھیں، اور دوسری وہ تھیں جو دوسرے سالار شا م کے دوسرے علاقوں میں رومیوں کو دیتے چلے آرہے تھے۔
مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ انہیں کسی ایک میدان میں اکٹھا ہونے پر مجبور کیا جائے اور ان کے مخالف ان سے کئی گنا زیادہ فوج میدان میں اتاری جائے۔ چنانچہ اس نے نئی اور بہت بڑی فوج تیار کرنی شروع کر دی تھی۔ مسلمانوں نے جب حمص پرقبضہ کیا اس وقت تک اس کی نئی فوج کی نفری ڈیڑھ لاکھ ہو چکی تھی۔
انطاکیہ سے چالیس میل دور ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ رکے ہوئے تھے۔ اس کے دو روز بعد جب انہوں نے رومیوں کا قافلہ پکڑا تھا، مسلمان مغرب کی نماز کی تیاری کر رہے تھے کہ اک گھوڑ سوار پڑاؤ کی طرف آتا دکھائی دیا۔ اتنی دور سے پتا نہیں چلتا تھا کہ وہ رومیوں کا کوئی فوجی سوار ہے یا کوئی مسافر ہے۔ پڑاؤ سے کچھ دور اس نے گھوڑا موڑ لیا اور پراؤ کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگا جیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کا لباس مسلمانوں جیسا نہیں تھا۔
’’پکڑ لاؤ اسے!‘‘ … کسی کماندار نے اپنے سواروں کو حکم دیا۔
سوار ابھی گھوڑوں پر زینیں ڈال رہے تھے کہ اس اجنبی سوار نے گھوڑا پڑاؤ کی طرف موڑ دیا۔
’’اﷲ اکبر!‘‘ … اس نے نعرہ لگایا اور قریب آکر اس نے بڑی بلند آواز میں کہا۔ … ’’میں اپنے پرچم کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔‘‘
’’ابنِ احدی!‘‘ … کسی نے کہا اور چند ایک مجاہدین اس کی طرف دوڑے۔ ایک نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم! ہم اب بھی تجھے رومی فوج سمجھ رہے ہیں۔‘‘
’’کیا یہ لباس اس رومی کا ہے جسے تو نے قتل کیا ہوگا؟‘‘ … ایک نے پوچھا۔
ابنِ احدی کسی کو بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ جاسوس ہے اور انطاکیہ سے آیا ہے۔ وہ ابو عبیدہؓ کے خیمے میں چلا گیا۔ وہ ان تین چار جاسوسوں میں سے ایک تھا جو ڈیڑھ دو مہینوں سے انطایہ گئے ہوئے تھے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages