Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid127


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  127
ہرقل کے لشکر کا وہ حصہ جو جبلہ بن الایہم کی زیرِ کمان تھا، جون ۶۳۶ء میں حمص کے قریب پہنچ گیا۔ ہرقل کے جاسوسوں نے اسے اطلاع دی تھی کہ انہوں نے مسلمانوں کی فوج کو شیرز کے مقام پر پڑاؤ ڈالے دیکھا ہے لیکن جبلہ کا لشکر وہاں پہنچا تو وہاں پڑاؤ کے آثا ر تو ملتے تھے لیکن لشکر کا کوئی بھی آدمی وہاں نہیں تھا۔
جبلہ نے کہا کہ وہ حمص میں اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس نے اپنا ہراول دستہ حمص کو روانہ کر دیا۔ دیکھا کہ شہر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں دیواروں پر شہر کے لوگ کھڑے تھے۔ کوئی فوجی نظر نہیں آتا تھا۔
’’کہاں ہیں مسلمان؟‘‘ … ہراول کے سالار نے پوچھا۔
’’یہاں کوئی مسلمان نہیں۔‘‘ … اسے اوپر سے جواب ملا۔
’’کیا تم اپنے مذہب کے دشمن کے ساتھ مل گئے ہو؟‘‘ … رومی ہراول کے سالار نے کہا۔ … ’’کیا دروازے کھلے چھوڑ کر ہمیں دھوکا دینا چاہتے ہو؟‘‘
’’اندر آکر دیکھ لو۔‘‘ … اوپر سے شہریوں نے اسے بتایا۔
’’اگر تم بھی اس دھوکے میں شریک ہو تو اپنی سزا سوچ لو۔‘‘ … ہراول کے سالار نے کہا۔
اس نے اپنے دستے کو شہر کے باہر رہنے دیا اور اپنے سالار جبلہ کی طرف قاصد دوڑا دیا کہ یہ دھوکا معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں کوئی فوج نہیں۔ جبلہ کو پیغام ملا تو وہ واہی تباہی بکنے لگا۔
’’یہ دھوکا ہے۔‘‘ … جبلہ غصے سے چلایا۔ … ’’مسلمانوں نے ہماری فوج کو جہاں بھی شکست دی ہے دھوکے سے دی ہے۔ وہ شہر میں موجود ہیں اور انہوں نے ہمیں پھانسنے کیلئے شہر کے دروازے کھلے چھوڑ رکھے ہیں۔‘‘
جبلہ نے اپنے تیس ہزار کے لشکر کو پیش قدمی کا حکم اس ہدایت کے ساتھ دیا کہ حمص کے دروازوں میں سیلاب کی طرح داخل ہوں اور شہر میں بکھریں نہیں۔ مسلمان لوگوں کے گھروں میں چھپے ہوئے ہوں گے۔ اسے یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ اس کا لشکر شہر میں بکھر گیا تو مسلمان اس کے سپاہیوں کو چن چن کر ماریں گے۔
وہ سیلاب کی ہی مانند شہر میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کو للکارنے لگے کہ وہ باہر آئیں لیکن کوئی مسلمان باہر نہ آیا۔ جبلہ نے خطرہ مول لے کر ہر گھر کی تلاشی کا حکم دیا۔ سپاہی لوگوں کے گھروں پر ٹوٹ پڑے۔ تلاشی کے بہانے انہوں نے گھروں میں لوٹ مار کی اور عورتوں پر دست درازی کی۔ شہری چیختے چلاتے باہر آگئے۔
’’تم سے تو وہ اچھے تھے جو چلے گئے ہیں۔‘‘
’’تم نے اپنے مذہب کا بھی احترام نہیں کیا۔‘‘
’’ہمارے مذہب کا احترام مسلمانوں نے کیا تھا۔‘‘
’’وہ ہم سے لیا ہوا جزیہ واپس کر گئے ہیں۔‘‘
’’وہی اچھے تھے … وہی اچھے تھے۔‘‘
’’مسلمان تمہاری طرح لٹیرے نہیں تھے۔‘‘
جبلہ بن الایہم شہر کے مردوں اور عورتوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا سنتا رہا۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان چلے گئے ہیں۔اس نے جب اپنے ہم مذہب لوگوں کی زبان سے یہ الفاظ سنے کہ مسلمان اچھے تھے اور وہ تمہاری طرح لٹیرے نہیں تھے اور یہ کہ انہوں نے جزیہ واپس کر دیا تھا تو اس نے اپنے لشکر کو اکٹھا کیا۔
’’شکست تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔‘‘ … جبلہ نے اپنے لشکرسے کہا۔ … ’’آج پہلی بار مجھے پتا چلا ہے کہ مسلمانوں کی فتح کاباعث کیا ہے اور کیوں ہر قصبے اورشہر کے لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں۔ یہ اہلِ صلیب کا شہر ہے مسلمانوں نے ان کی عزت اور آبرو پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ تم بھی اہلِ صلیب ہو مگر تم نے ان کی آبرو پامال کر دی ہے اور ان کے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا لائے ہو۔ تم لڑنے نہیں آئے لوٹ مار کرنے آئے ہو اور کہتے پھرتے ہو کہ مسلمانوں میں کوئی غیبی طاقت ہے۔ تم نے لڑے بغیر یہ شہر لے لیا ہے۔ اگر تمہارا ایمان ہوتا تو تمہیں نہ لوٹ مار کی ہوش رہتی نہ تم کسی عورت کی طرف دیکھتے۔ جو سامان تم نے لوگوں کے گھروں سے اٹھایا ہے وہ یہاں رکھ دو۔‘‘
…………bnb…………

جزیہ کی واپسی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ بلاذری ، ابو سعید، ابنِ ہشام اور طبری نے لکھا ہے کہ خالدؓ کے مشورے پر جب سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے مفتوحہ قصبے اور شہر چھوڑ کر جابیہ کے مقام پر تمام دستوں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تو انہو ں نے حمص کے چند ایک سرکردہ افراد کو بلایااور انہیں بتایا کہ وہ حمص سے جا رہے ہیں۔ پہلے تو ان افراد کو یقین نہ آیا جب یقین آیا تو انہو ں نے افسوس کا اظہار کیا۔
’’ہم نے پہلی بار عدل و انصاف دیکھا تھا۔‘‘ … ایک شہری نے کہا۔ … ’’ہم نے ظلم جبر اور بے انصافی کا راج دیکھا تھا۔ آپ ہمیں عدل و انصاف و عزت و آبرو سے محروم کر کے پھر ہمیں ظالموں کے حوالے کر کے جا رہے ہیں۔‘‘
’’اﷲنے چاہا تو ہم پھر آجائیں گے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’میں نے تمہیں وہ جزیہ واپس دینے کیلئے بلایا ہے جو ہم نے تم سے وصول کیا تھا۔‘‘
’’نہیں… ‘‘ … شہریوں کے نمائندوں نے متفقہ طور پر احتجاج کیا۔ … ’’ ہم اپنا جزیہ واپس نہیں لیں گے۔‘‘
’’ یہ جزیہ ہم پر حرام ہو گیا ہے۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ہم نے تم سے اس معاہدے پر جزیہ لیا تھا کہ ہم تمہاری حفاظت کے ذمہ دار ہوں گے لیکن ہم تمہیں ان لوگوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کے جا رہے ہیں جنہیں تم ظالم و جابر سمجھتے ہو۔ ہم تمہاری حفاظت اور سلامتی کا معاہدہ پورا نہیں کر سکے۔ تم اپنا جزیہ وپس لے جاؤ اور یہ تمام شہریوں کو واپس کر دینا۔‘‘
ایک مؤرخ ابو یوسف نے لکھا ہے کہ حمص کے شہری جو پہلے ہی مسلمانوں کے سلوک اور انتظام اور عدل و انصاف سے متاثر تھے جزیہ کی واپسی سے اور زیادہ متاثر ہوئے۔ حد یہ کہ حمص میں جو یہودی مقیم تھے ان کے نمائندے نے ابو عبیدہؓ سے کہا کہ حمص میں اب وہی حکمران داخل ہو سکے گا جو فوجی طاقت کے بل بوتے پر آئے گا۔ ورنہ وہ کسی اور کو اپنے اوپر حاکم تسلیم نہیں کریں گے۔ایک یہودی کے منہ سے مسلمانوں کی حمایت کے الفاظ اس وجہ سے حیران کن ہیں کہ یہودی مسلمانوں کے بد ترین دشمن تھے۔
…………bnb…………

رومی فوج کا سالار قناطیر ہرقل کے منصوبے کے مطابق دمشق پر حملہ کرنے گیا تو وہاں اسے اسلامی فوج کا کوئی آدمی نظر نہ آیا، مسلمان دمشق سے نکل کر جابیہ چلے گئے تھے۔ ابو عبیدہؓ نے ان تمام سالاروں کو جو مفتوحہ جگہوں کے حاکم مقررہوئے تھے حکم بھیجا تھا کہ وہاں سے کوچ سے پہلے لوگوں کو جزیہ کی رقم واپس کر دی جائے کیونکہ ہم ان کی حفاظت نہیں کر سکے۔ چنانچہ دمشق کے شہریوں کو بھی جزیہ واپس کر دیا گیاتھا۔
اس طرح مسلمان اپنے پیچھے بڑا اچھا تاثر چھوڑ کر آئے لیکن وہ اس علاقے سے نکلے نہیں۔ تمام دستے دریائے یرموک سے سات آٹھ میل دور جابیہ کے مقام پر اکٹھے ہو گئے، ان میں شرحبیلؓ بن حسنہ، عمروؓ بن العاص، یزیدؓ بن ابی سفیان، ضرارؓ بن الازور جیسے نامی گرامی سالار قابلِ ذکر ہیں۔سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ نے سب کو مشاورت کیلئے بلایا۔
’’تم سب پر اﷲ کی سلامتی ہو!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’کیا میرے چہرے پر وہی پریشانی نہیں ہے جو تم ایک دوسرے کے چہروں میں دیکھ رہے ہو؟ … لیکن یہ پریشانی ہے مایوسی نہیں۔مایوس نہ ہونا اس اﷲ کی ذات باری سے جس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور پیروی میں ہم اتنی مدت سے گھروں سے نکلے ہوئے ہیں۔ ہم پسپا نہیں ہوئے ہیں پیچھے ہٹے ہیں، اور پیچھے اس لیے ہٹے ہیں کہ اکٹھے ہو کر اس دشمن کے مقابلے میں کھڑے ہو سکیں جو ہمارے دین کا دشمن ہے۔ کیا تم نے سن لیا ہے کہ ہرقل کی فوج کی تعداد دو لاکھ کے قریب ہے؟‘‘
’’ہاں امین الامت!‘‘ … سالاروں کی آوازیں سنائی دیں۔ … ’’سن لیا ہے۔‘‘
’’اور ہم کتنے ہیں؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’چالیس ہزار۔ لیکن تم ہر میدان میں قلیل تعداد میں تھے۔ اور اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ ایمان والے بیس ہوئے تو دو سو، کفار پر غالب آئیں گے۔ پھر بھی میں تمہیں امتحان میں نہیں ڈالوں گا۔ حکم نہیں دوں گا۔ مجھے مشورہ دو۔‘‘
’’کیا ایسا ٹھیک نہیں ہو گا کہ ہم واپس چلے جائیں؟‘‘ … ایک سالار نے کہا۔ … ’’ ہرقل ہمیشہ اتنی زیادہ فوج نہیں رکھے گا جونہی کبھی اطلاع ملے کہ ہرقل نے فوج کی تعداد کم کر دی ہے ہم پھر واپس آجائیں گے۔ہم پہلے سے زیادہ تیار ہو کر آئیں گے۔‘‘
’’اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ ہمارے مجاہدین نے اتنا خون بہاکراور قربانیاں دے کر جو علاقے فتح کیے ہیں وہ رومیوں کو واپس کر دیں۔‘‘ … ابوعبیدہؓنے کہا۔ … ’’اگر ہم نے ایسا کیا تو ہمارے سارے لشکر کا حوصلہ ٹوٹ جائے گااور دشمن کا حوصلہ مضبوط ہو جائے گا۔رومی فوج پر ہم نے جو دھاک بٹھائی ہے وہ ختم ہو جائے گی۔‘‘
’’ہم فیصلہ کن جنگ لڑیں گے ۔‘‘ … ایک اور سالار نے کہا۔’’فتح اور شکست اﷲکے ہاتھ میں ہے۔‘‘
اس مشورے پر زیادہ تر سالاروں نے لبیک کہا۔
’’لڑے بغیر واپس گئے تو مدینہ والوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟‘‘
’’پھر پسپائی بھی ہماری روایت بن جائے گی۔‘‘
’’اپنے بچوں کو یہ سبق ملے گا کہ دشمن قوی ہو تو بھاگا بھی جا سکتا ہے۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی طرف دیکھاجو بالکل خاموش بیٹھے تھے۔ انہوں نے نہ کسی کی تائید میں کچھ کہا نہ مخالفت میں۔
’’کیوں ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’کیا تو کوئی مشورہ نہیں دے گا۔ تیرے جرات اور قابلیت کی ضرورت تو اب ہے۔کیا سوچ رہا ہے تو؟‘‘
’’ابنِ عبداﷲ !‘‘ … خالد نے کہا … ’’جس کسی نے جو کچھ بھی کہا ہے، وہ اپنے خیال کے مطابق ٹھیک کہا ہے۔ لیکن میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سب نے مل کر جو فیصلہ کیا میں اس کا پابند رہوں گا اور تیرا ہر حکم مانوں گا۔‘‘
 ’’تو جو کچھ کہنا چاہتا ہے کہہ دے ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’مجھے تیری رائے کی ضرورت ہے۔‘‘
’’پہلی بات یہ ہے امین الامت!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہم بڑی خطرناک جگہ آکر بیٹھ گئے ہیں، یہاں سے تھوڑی ہی دور قیساریہ میں رومیوں کی فوج موجود ہے اس کی نفری چالیس ہزار ہے اور اس کا سالار ہرقل کا ایک بیٹا قسطنطین ہے۔ ہماری تعداد اتنی ہی ہے۔ جتنی اکیلے قسطنطین کی ہے۔ ہم ایسی جگہ پر ہیں کہ وہ ہم پر عقب سے آسانی سے حملہ کر سکتا ہے۔ ایسا حملہ وہ اس وقت کرے گا جب سامنے سے ہم پر ہرقل کی فوج حملہ کرے گی۔ ہمیں یرموک کے مقام پر چلے جانا چاہیے۔ وہ زمین گھوڑ سوار دستوں کے لڑنے کیلئے بہت اچھی ہے اور ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ مدینہ سے کمک اور رسد کا راستہ کھلا رہے گا۔‘‘
ابو عبیدہؓ نے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا۔ سب نے کہا کہ اس سے بہتر اور کوئی تجویز نہیں ہو سکتی۔ … ابو عبیدہؓ نے اسی وقت جابیہ سے یرموک کی طرف کوچ کا حکم دے دیا اور خالدؓ کو فوج کی عقبی گارڈ کے طور پر پیچھے رہنے دیا۔خالدؓ کو ان چار ہزار سواروں کے دستے کی کمان دی گئی جوخالدؓ نے تیار کیا تھا۔ یہ سب منتخب شہسوار تھے یہ دستہ جم کر نہیں گھوم پھر کر لڑتا تھا۔ یہ خالدؓ کی اپنی جاسوسی تھی کہ انہوں نے معلوم کر لیا تھا کہ قیساریہ میں ہرقل کی جو فوج ہے اس کی نفری چالیس ہزار اور اس کا سالار ہرقل کا بڑا بیٹا قسطنطین ہے۔
…………bnb…………

معروف مؤرخ گبن لکھتا ہے کہ جنگی اصولوں اور امور کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو رومی فوج کے مقابلے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ صرف چالیس ہزار نفری سے اس فوج کے خلاف لڑنا جس کی نفری ڈیڑھ اور دو لاکھ کے درمیان تھی ممکن نہ تھا۔روم کا شہنشاہ صحیح معنوں میں سپاہیوں اور گھوڑوں کا ایسا سیلاب لے آیا تھا جس کے آگے کوئی بھی فوج نہیں ٹھہر سکتی تھی، لیکن مسلمان اس سیلاب کے آگے بند باندھنے اور اسے پھیلا کر ختم کردینے کا تہیہ کر چکے تھے۔ ان کے پاس صرف جذبہ تھا۔
مسلمانوں کے جذبے کی شدت اور عزم کی پختگی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ خالدؓ ان میں موجود تھے اور خالدؓ سراپا عزم اور مجسم جذبہ تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ایمان کے آگے باطل کی کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی۔ خالدؓ نے ایک مثال وہیں قائم کردی وہ اس طرح کہ مسلمانوں کی فوج جابیہ سے کوچ کر گئی تو خالدؓ ابو عبیدہؓ کے حکم کے مطابق ابھی جابیہ میں تھے۔
ادھر ہرقل کے لشکر نے اتنی تیزی سے نقل و حرکت کی تھی کہ اس کے سالاروں کو جن علاقوں میں پہنچنے کا حکم ملا تھا وہ اپنے دستوں کے ساتھ ان علاقوں میں پہنچ گئے تھے۔شام اور فلسطین میں ہرقل کی فوج چھاگئی تھی۔
خالدؓجابیہ سے روانہ ہونے لگے تو اچانک رومی فوج کا ایک دستہ دائیں پہلو سے آتا نظر آیا۔ یہ رومی فوج کے کسی حصہ کا ہراول تھا اور اس سوار دستے کی تعداد خالدؓ کے دستے سے زیادہ تھی۔ رومی دستے کو اپنی بے پناہ فوج کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس نے خالدؓ کے دستے پر حملہ کر دیا۔ خالدؓنے اپنے اس سوار دستے کو خود تربیت دی تھی۔ انہوں نے ان سواروں کو بھاگ دوڑ کر لڑنے کی ترتیب میں کر لیا۔
رومی دستے کے سوار اسی علاقے کے عیسائی تھے۔ وہ جنگ کی ترتیب میں حملے پر حملہ کرتے تھے مگر خالدؓ کے سواروں کا انداز کچھ اور تھا۔ عیسائیوں کا ہر ہلہ اس طرح ضائع ہو جاتا تھا جس طرح حریف کو مارا ہوا گھونسا حریف کو لگنے کے بجائے ہوا میں لگے۔ ذرا ہی دیر بعد عیسائی سوار میدان میں بے ترتیب بکھرے ہوئے تھے اور مسلمان سوار انہیں کاٹ رہے تھے۔
خالدؓ نے اپنا مخصوص نعرہ … ’’میں خالد ابنِ ولید ہوں‘‘ … لگایا تو معرکے کی صورت ہی بدل گئی۔ خالدؓ کا یہ نعرہ پہلے ہی رومی فوج میں مشہورتھا اور اس نعرے کے ساتھ ایک دہشت وابستہ تھی۔ عیسائی سواروں کی تنظیم پہلے ہی بکھر گئی تھی اور مسلمان سوار ان پر غالب آگئے تھے۔ خالدؓ کے نعرے نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور عیسائی سوار افراتفری کے عالم میں بھاگنے لگے۔
خالدؓ یہ معرکہ ختم ہوتے ہی اپنے لشکر کی طر ف روانہ نہ ہوئے۔ بلکہ دو تین دن وہیں موجود رہے۔ انہیں توقع تھی کہ رومی فوج کا یہ حصہ اپنے ہراول کا انتقام لینے آگے آئے گا۔ خالدؓرومیوں کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ مسلمان کہیں بھاگ نہیں گئے یہیں ہیں، اور زندہ بیدار لڑنے کیلئے تیار ہیں، رومی آگے نہ آئے اور خالدؓاپنے لشکر سے جا ملے۔
گبن نے لکھا ہے کہ رومی اسی ایک جھڑپ سے ہی محتاط ہو گئے تھے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages