Featured Post

Khalid001

20 April 2020

Khalid133


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  133
خاک و خون میں ڈوبی ہوئی رات کے بطن سے ایک اور صبح طلوع ہوئی۔ یہ تاریخ اسلام کی ایک بھیانک اور ہولناک جنگ کے چوتھے روز کی صبح تھی۔ مسلمان فجر کی نماز پڑھ چکے تو خالدؓ اٹھے۔
’’اے جماعتِ مومنین!‘‘ … خالدؓ نے مجاہدین سے کہا۔ … ’’تم نے دن اﷲ کی راہ میں لڑتے اور راتیں اﷲ کویاد کرتے گزاری ہیں۔ اﷲہمارے حال سے بے خبر نہیں۔ اﷲ دیکھ رہا ہے کہ تم لڑنے کے قابل نہیں رہے پھر بھی لڑ رہے ہو۔ اﷲ تم سے مایوس نہیں ہوا۔ تم اس کے رحم و کرم سے مایوس نہ ہونا۔ ہم اﷲ کیلئے لڑ رہے ہیں۔ … آج کے دن حوصلہ قائم رکھنا آج اسلام کی قسمت کا فیصلہ ہو گا ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اﷲ کے سامنے بھی رسول اﷲﷺ کی روحِ مقدس کے سامنے بھی اور اپنے ان بھائیوں کی روحوں کے سامنے بھی شرمسار ہوں جو ہمارے ساتھ چلے تھے اور ہم نے ان کے لہولہان جسموں کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر دیا ہے۔ کیا تم ان کے بچوں کی خاطر جو یتیم ہو گئے ہیں اور ان کی بیویوں کی خاطر جو بیوہ ہو گئی ہیں اور ان کی بہنوں اور ان کی ماؤں کی عزت کی خاطر نہیں لڑو گے؟‘‘
’’بے شک ابن الولید!‘‘ … مجاہدین کی آوازیں اٹھیں۔ … ’’ہم لڑیں گے۔‘‘
’’شہیدوں کے خون کے قطرے قطرے کا انتقام لیں گے۔‘‘
’’آج کے دن لڑیں گے ، کل کے دن اور زندگی کے جتنے دن رہ گئے ہیں وہ کفار کے خلاف لڑتے گزار دیں گے۔‘‘
اس طرح مجاہدین نے خالدؓ کی آواز پر جوش و خروش سے لبیک کہا لیکن ان کی آوازوں میں وہ جان نہیں تھی جو ہوا کرتی تھی۔ جہادکا عزم موجود تھا۔ خالدؓ کا یہ پیغام سارے محاذ تک پہنچایا گیا۔ ہر سالار کی زبان پر یہی الفاظ تھے۔ … ’’آج کے دن حوصلہ نہ ہارنا، آج کے دن۔‘‘
ادھر رومی لشکر کے سالاروں کو بھی یہی حکم ملا تھا۔ … ’’آج کے دن مسلمانوں کا خاتمہ کر دو۔‘‘
صبح کا اجالا صاف ہوتے ہی رومی دستے نمودار ہو ئے۔ ان کا انداز پہلے والا اور پلان بھی پہلے والا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستوں کا حملہ کیا۔ حملہ آور آرمینیہ کی فوج تھی جس کا سالار قناطیر تھا ۔ عمروؓ بن العاص کے پہلو میں سالار شرحبیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ ان پر آرمینیوں نے حملہ کیا اور ان کی مدد کیلئے عیسائی دستے بھی ساتھ تھے۔
عمروؓ بن العاص کیلئے صورتِ حال مخدوش ہو گئی۔ انہوں نے بہت دیر مقابلہ کیا لیکن وہ دشمن کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے مجاہدین نے تنظیم اور ترتیب توڑ دی اور حملہ آوروں پر ٹوٹ پڑے۔ وہ دراصل پسپا ہو رہے تھے۔ لیکن اب وہ پسپائی کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی صفیں توڑ کر انفرادی لڑائی شروع کردی۔ عمروؓ بن العاص سالار سے سپاہی بن گئے، وہ تو تلوار کے دھنی تھے۔ اکیلے انہی کی تلوار نے کئی آرمینیوں کو خون میں نہلا دیا۔ ان کے دستے کا ہر فرد اب اپنی لڑائی لڑ رہا تھا۔ انہوں نے دشمن کی بھی ترتیب توڑ دی۔
رومیوں کے اتحادی یہ آرمینی اس قسم کی لڑائی کی تاب نہ لا سکے لیکن وہ پسپا نہیں ہو سکتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان کے پیچھے تازہ دم عیسائی دستے موجود تھے، وہ آرمینیوں کو پیچھے نہیں آنے دیتے تھے دوسری وجہ یہ کہ ان کے سالار پیچھے ہٹنے کا حکم نہیں دیتے تھے اور تیسری وجہ یہ کہ مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود انہیں لڑائی میں سے نکلنے نہیں دے رہے تھے۔
شرحبیلؓ بن حسنہ کے دستوں کی حالت بھی ٹھیک نہیں تھی۔ انہیں دشمن نے بہت پیچھے ہٹا دیا تھا۔ مجاہدین بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ لیکن دشمن کا دباؤ ان کیلئے نا قابلِ برداشت ہو گیاتھا۔
…………bnb…………

خالدؓ نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انہوں نے یہ چال سوچی کہ عمروؓ بن العاص اور شرحبیلؓ بن حسنہ پر حملہ کرنے والے آرمینیوں پر پہلو سے حملہ کیا جائے لیکن ان کی مدد کو آنے والے دستوں کا راستہ روکنا بھی ضروری تھا۔ انہوں نے قاصد کو بلایا۔
’’ابو عبیدہ اور یزید سے کہو کہ آگے بڑھ کر اپنے سامنے والے رومیوں پر حملہ کر دیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اور انہیں کہنا کہ دشمن کے ان دستوں کو روکے رکھنا ہے کہ ہمارے دائیں پہلو کی طرف نہ جا سکیں … اور انہیں کہنا کہ اپنے سوار دستے بھی حملہ کر رہے ہیں۔‘‘
قاصد نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ بن ابی سفیان تک جا پہنچا۔ پیغام ملتے ہی ان دونوں سالار نے اپنے سامنے والے رومی دستوں پر حملہ کر دیا۔
خالدؓ نے اپنے مخصوص رسالے کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کی کمان قیس بن ھبیرہ کو دی اور دوسرے کو اپنے کمان میں رکھا۔ خالدؓ اپنے دائیں پہلو کے پیچھے سے گزر کر آگے نکل گئے اور اس طرف سے آرمینی دستوں پر حملہ کر دیا ۔ان کے حکم کے مطابق قیس بن ھبیرہ کے سوار دستوں نے آرمینیوں پر دوسرے پہلو سے حملہ کر دیا۔ شرحبیلؓ نے سامنے سے حملہ کر دیا۔
یہ سہہ طرفی حملہ تھا جو آرمینیوں کیلئے ایک آفت ثابت ہوا۔ عیسائی دستے ان کی مدد کو آئے لیکن بے شمار لاشیں تڑپتے ہوئے زخمی اور بے لگام بھاگتے ہوئے گھوڑے چھوڑ کر پسپا ہو گئے، اور اپنے محاذ بلکہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے۔ ابھی دشمن کا پیچھا نہیں کیا جا سکتا تھا۔خالدؓ ابھی دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ دشمن حملے کر کر کے تھک جائے۔
ابو عبیدہؓ اور شرحبیلؓ نے آگے بڑھ کر جو حملہ کیا تھا وہ انہیں مہنگا پڑا۔ دشمن نے ان دونوں سالاروں کے دستوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ یہ ویسی تیر اندازی نہیں تھی جیسی لڑائیوں میں معمول کے مطابق ہوا کرتی ہے، یہ تو صحیح معنوں میں تیروں کا مینہ تھا۔ رومی اپنے لشکر کے تمام تیر اندازوں کو آگے لے آئے تھے۔ بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ فضاء میں اڑتے ہوئے تیروں نے سورج کو چھپا لیا تھا۔
تیر اندازوں کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ سات سو مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر لگے اور آنکھیں ضائع ہو گئیں۔ اسی لیے اس دن کو ’’یوم النفور‘‘ کہا جاتا ہے۔ مسلمان تیر اندازوں نے رومی تیر اندازوں پر تیر چلائے لیکن مسلمانوں کے تیر بے کار ثابت ہوئے کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں چھوٹی تھیں۔ ان سے تیر دور تک نہیں جا سکتا تھا ۔اس کے علاوہ تیر اندازوں کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔
اسی دن ابو سفیان ؓکی آنکھ میں بھی تیر لگااور وہ ایک آنکھ سے معذور ہو گئے۔
اس صورتِ حال میں مسلمان میدان میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ ابو عبیدہؓ اور شرحبیلؓ کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ سات سو مسلمان تو وہ تھے جن کی آنکھوں میں تیر لگے تھے۔ اس کے علاوہ زخمیوں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی۔
…………bnb…………

رومی سالارِ اعلیٰ ماہان ایک اونچی چٹان کی چوٹی سے یہ جنگ دیکھ رہا تھا۔
’’وہ وقت آگیا ہے۔‘‘ … ماہان نے چلّا کر کہا۔ … ’’اب حملے کا وقت آگیا ہے۔ نہیں ٹھہر سکیں گے۔‘‘ … اس نے اپنے دو سالاروں کو پکار کر کہا۔ … ’’گریگری، قورین! تیز ہلہ بول دو۔ فیصلے کا وقت آگیا ہے۔‘‘
جنگ کے شور وغوغا میں اور پھر اتنی دور سے اس کی آواز سالاروں تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس کی پکار اس کے قاصد سن سکتے تھے جو ہر وقت اس کے قریب موجودرہتے تھے۔
’’کوئی اور حکم؟‘‘ … ایک قاصد نے ماہان کے آگے ہو کر پوچھا۔
ماہان نے اپنا پورا حکم دیا اور قاصد کا گھوڑا بڑی تیزی سے چٹان سے اتر کر میدانِ جنگ کی قیامت خیزی میں غائب ہو گیا۔
ماہان مسلمانوں کو اسی کیفیت میں لانا چاہتا تھا کہ وہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں۔ وہ کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کی نفری ہزاروں کے حساب سے کم ہو گئی تھی اور جو زخمی نہیں تھے وہ جسمانی تھکن سے چور ہو چکے تھے۔ رومیوں کیلئے وہ فیصلہ کن لمحہ آگیا تھا جس کا حکم ماہان نے گذشتہ رات اپنے سالاروں کو دیا تھا۔
ماہان کا حکم پہنچتے ہی رومیوں نے تین سالاروں … ابو عبیدہؓ، یزیدؓ بن ابی سفیان اور عکرمہؓ … کے دستوں پر حملہ کر دیا۔ ابو عبیدہؓ اور شرحبیلؓ کے دستوں پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا کیونکہ ان کے قدم پہلے ہی اکھڑے ہوئے تھے۔ وہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ انہیں میدانِ جنگ سے بھگا دینا رومیوں کیلئے کوئی مشکل نہ تھا۔ وہ پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جا رہے تھے۔
رومی جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں لے آئے تھے۔
مسلمانوں کی شکست یقینی تھی اور اس شکست کے نتائج صرف ان مسلمانوں کیلئے ہی تباہ کن نہیں تھے، جو لڑ رہے تھے بلکہ اسلام کیلئے بھی کاری ضرب تھی۔ اسی میدان میں یہ فیصلہ ہونا تھا کہ اس خطے میں مسلمان رہیں گے یا رومی، اسلام رہے گا یا عیسائیت؟
فی الوقت میدان عیسائیت کے ہاتھ تھا۔
ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستوں کے بائیں پہلو پر عکرمہؓ کے دستے تھے۔ ان پر بھی حملہ ہوا تھا۔ لیکن یہ اتنا زور دار نہیں تھا جتنا دوسرے دستوں پر تھا۔ عکرمہؓ نے ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ جیسے بہادر سالار کو پسپائی کی حالت میں دیکھا تو انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اپنے دستے بھی نہیں ٹھہر سکیں گے۔
’’خدا کی قسم! ہم یوں نہیں بھاگیں گے۔‘‘ … عکرمہؓ نے نعرہ لگایا اور اپنے دستوں میں گھوم پھر کر کہا۔ … ’’جو لڑ کر مرنے اور پیچھے نہ ہٹنے کی قسم کھانے کو تیار ہے الگ ہو جائے۔ … سوچ کر قسم کھانا۔ قسم توڑنے کے عذاب کو سوچ لو۔ … فیصلہ کرو تمہیں کیا منظور ہے؟ … شکست یا موت؟ … ذلت و رسوائی کی زندگی یا با عزت موت؟‘‘
اگر صورتِ حال یہ نہ ہوتی اور مسلمان تازہ دم ہوتے تو عکرمہؓ کے اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن مسلمان جسمانی طور پر جس بری حالت کو پہنچ گئے تھے وہ اس کا بہت برا اثر ذہنوں پر بھی پڑا تھا۔ یہ دستے پہلی جنگ تو نہیں لڑ رہے تھے۔ وہ تین تین چار چار برسوں سے گھروں سے نکلے ہوئے تھے اور لڑتے ہوئے یہاں تک پہنچے تھے۔ یہ جذبہ تھا جو انہیں یہاں تک لے آیا تھا۔ ورنہ عام ذہنی حالت میں یہ ممکن نہیں تھا۔
اس جسمانی اور ذہنی کیفیت میں عکرمہؓ کے اعلان اور للکار پر صرف چار سو مجاہدین نے لبیک کہا اور حلف اٹھایا کہ ایک قدم پیچھے نہیں ہٹھیں گے۔ لڑتے ہوئے جانیں دیدیں گے۔ باقی جو تھے وہ لڑنے سے منہ نہیں موڑ رہے تھے لیکن وہ ایسی قسم نہیں کھانا چاہتے تھے جسے وہ پورا نہ کر سکیں۔
ان چار سو مجاہدین نے جنہوں نے حلف اٹھایا تھا اپنے سالار عکرمہؓ کی قیادت میں ان رومیوں پر ہلہ بول دیا جو ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ یہ ہلہ اتنا شدید تھا جیسے شیر شکار پر جھپٹ رہے ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ رہا کہ رومیوں کا جانی نقصان بے شمار ہوا۔ عکرمہؓ کے دستوں میں سے کوئی ایک آدمی بھی پسپا نہ ہوا لیکن چار سو جانباوں میں سے ایک بھی صحیح و سلامت نہ رہا۔ زیادہ تر شہیدہو گئے اور باقی شدید زخمی اور بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوتے رہے ۔کئی ایک جسمانی طورپر معذور ہو گئے۔
انتہائی شدید زخمی ہونے والوں میں عکرمہؓ بھی تھے اور ان کے نوجوان بیٹے عمرو بھی۔ انہیں بے ہوشی کی حالت میں پیچھے لایا گیا تھا۔
…………bnb…………

ابو عبیدہؓ اور یزیدؓ کے دستے پیچھے ہٹتے گئے۔ رومی انہیں دھکیلتے چلے آرہے تھے۔ بڑا ہی خونریز معرکہ تھا۔ جب یہ دستے مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچے تھے تو مسلمان عورتوں نے ڈنڈے پھینک کر تلواریں اور برچھیاں اٹھا لیں اور چادریں پگڑی کی طرح اپنے سروں سے لپیٹ کر رومیوں پر ٹوٹ پڑیں۔ ان میں ضرار کی بہن خولہ بھی تھیں۔ جو عورتوں کو للکار رہی تھیں۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتیں اپنے دستوں میں سے گزرتی آگے نکل گئیں اور بڑی مہارت دلیری اور قہر سے رومیوں پر جھپٹنے لگیں۔ وہ تازہ دم تھیں انہوں نے رومیوں کے منہ توڑ دیئے ان کی ضربیں کاری تھیں۔ رومی زخمی ہو ہو کر گرنے لگے۔
عورتوں کے یوں آگے آجانے اور رومیوں پر جھپٹ پڑنے کا جو اثر مجاہدین پر ہوا وہ غضب ناک تھا۔ اپنی عورتوں کر لڑتا دیکھ کر مجاہدین آگ بگولہ ہو گئے۔ انسان میں جو مخفی قوتیں ہوتی ہیں وہ بیدار ہو گئیں اور وہی مجاہدین جو پسپا ہوئے جا رہے تھے رومیوں کیلئے قہر بن گئے۔ انہوں نے ترتیب توڑ دی اور اپنے سالاروں کے احکام سے آزاد ہو کر ذاتی لڑائی شروع کر دی، ان کی ضربوں کے آگے رومی بوکھلا گئے، اور پیچھے ہٹنے لگے۔ وہ اپنے زخمیوں کو روندتے جا رہے تھے۔
سالار بھی سپاہی بن گئے، اور عورتیں بدستور لڑتی رہیں۔ دن کا پچھلا پہر تھا۔ معرکہ انتہائی خونریز اور تیز ہو گیا۔ رومیوں کے پاؤں اکھڑ گئے تھے۔ گھمسان کے اس معرکے میں ضرار کی بہن خولہ جو اس وقت تک کئی ایک رومیوں کو زخمی اور ہلاک کر چکی تھیں ایک اور رومی کے سامنے ہوئیں۔ پہلا وار خولہ نے کیا جو رومی نے روک لیا اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایسا زور دار وار کیا کہ اس کی تلوار نے خولہ کے سر کا کپڑا بھی کاٹ دیا اور سر پر شدید زخم آئے۔ خولہ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ پھر انہیں اٹھتے نہ دیکھا گیا۔
اس کے فوراً بعد سورج غروب ہو گیا اور دونوں طرف کے دستے اپنے اپنے مقام پر پیچھے چلے گئے اور زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے کا کام شروع ہو گیا۔ رومیوں کی لاشوں اور بے ہوش زخمیوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ نقصان مسلمانوں کا بھی کم نہ تھا لیکن رومیوں کی نسبت بہت کم تھا۔
خولہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔انہیں خیمہ گاہ میں ڈھونڈا گیا نہ ملیں تو لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈنے لگے اور وہ بے ہوش پڑی ہوئی مل گئیں۔ سر میں تلوار کا لمبا زخم تھا۔ بال خون سے جڑ گئے تھے۔
’’اس کے بھائی کو اطلاع دو۔‘‘ … کسی نے کہا۔ … ’’ابن الازور سے کہو تیری بہن شہید ہو رہی ہے۔‘‘
ضرار بن الازور بہت دور تھے۔ بڑی مشکل سے ملے ۔بہن کی اطلاع پر سر پٹ گھوڑا دوڑاتے آئے۔ جب اپنی بہن کے پاس پہنچے تو بہن ہوش میں آگئیں۔ ان کی نظر اپنے بھائی پر پڑی تو ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
’’خدا کی قسم !تو زندہ ہے۔‘‘ … ضرار نے جذبات سے مغلوب آواز میں کہا۔ … ’’تو زندہ رہے گی۔‘‘
ضرار نے خولہ کو اٹھا کر گلے لگالیا۔ خولہ کے سر پر تہہ در تہہ کپڑ اتھا جس نے تلوار کی ضرب کو کمزور کر دیا تھا۔ سر پر صرف اوڑھنی ہوتی تو کھوپڑی کٹ جاتی پھر زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا۔
جنگ کا بڑا ہولناک دن گزر گیا۔ رومیوں کو اپنے اس عزم میں بہت بری طرح ناکامی ہوئی کہ آج کے دن جنگ کا فیصلہ کردیں گے۔ ان کی نفری تو بہت زیادہ تھی لیکن اس روز ان کی جو نفری ماری گئی تھی اس سے ان کا یہ فخر ٹوٹ گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے کچل ڈالیں گے۔ مسلمانوں نے جس طرح اپنے سالاروں سے آزاد ہو کر ان پر ہلے بولے تھے اس سے وہ محتاط ہو گئے تھے۔
رومیوں کے لشکر میں سب سے زیادہ جو مارے گئے یا شدید زخمی ہوئے وہ عیسائی اور آرمینی اور دوسرے قبائل کے آدمی تھے جو رومیوں کے اتحادی بن کر آئے تھے۔ رومی سالارِ اعلیٰ ماہان نے انہی کو آگے کر دیا اور بار بار انہی سے حملے کروارہا تھا۔ ان لوگوں کا جذبہ اپنی اتنی زیادہ لاشیں اور زخمی دیکھ کر مجروح ہو گیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages