Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid124


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  124
ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کو اس حکم کے ساتھ روانہ کر دیا کہ وہ حمص پہنچ کر وہاں کا محاصرہ کر لیں۔ ابو عبیدہؓ خود ایک اور اہم مقام بعلبک کی طرف روانہ ہو گئے۔ توقع یہ تھی کہ ان دونوں جگہوں کا محاصرہ طول پکڑے گا اور مقابلہ بڑا سخت ہو گا لیکن (مؤرخوں کے مطابق) مسلمانوں کی تلوار کی دہشت وہ کام نہیں کر سکتی تھی جو ان کے حسنِ اخلاق نے کیا۔ مسلمان جدھر جاتے تھے وہاں کے لوگوں میں پہلے ہی مشہور ہو چکا ہوتا تھا کہ مسلمان کسی پر کوئی زیادتی نہیں کرتے اور وہ انہی شرطوں کے پابند رہتے ہیں جو وہ پیش کرتے ہیں۔
اس دور کی فاتح فوجیں سب سے پہلے مفتوح شہر کی خوبصورت عورتوں پر ہلہ بولتی تھیں۔ پھر لوگوں کے گھر لوٹ لیتیں اور گھروں کو آگ لگا دیتی تھیں۔یہ اس زمانے کا رواج تھا اور اسے فاتح فوجوں کا حق سمجھا جاتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس رواج کو نہ اپنایا بلکہ نہتے لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ ابو عبیدہؓ بعلبک پہنچے اور شہر کا محاصرہ کیا تو وہاں جو رومی دستہ تھا اس نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیئے۔
خالدؓ نے حمص کا محاصرہ کیا تو رومی سالار ہربیس باہر آگیا اور امن کے سمجھوتے کی پیش کش کی۔ابو عبیدہؓ بھی پہنچ چکے تھے ان کے حکم سے رومی سالار سے دس ہزار دینار اور زر بفت کی ایک سو قباؤں کا مطالبہ کیا گیا جو رومی سالار نے قبول کر لیا۔معاہدہ یہ ہوا کہ مسلمان ایک سال تک حمص پر حملہ نہیں کریں گے اور اگر اس دوران روم کی فوج نے اس علاقے میں مسلمانوں کے خلاف کوئی معمولی سی بھی جنگی کارروائی کی تو مسلمان صلح کے معاہدے کو منسوخ سمجھ کر جوابی کارروائی کریں گے۔
اس معاہدے پر دستخط ہوتے ہی شہر کے دروازے کھل گئے اور مسلمان فوج داخل ہوئی۔ مؤرخ ابنِ اثیر لکھتا ہے کہ حمص کے لوگ یہ دیکھ کر حیران ہوتے تھے کہ مسلمان دکانوں میں جاتے اور جو چیز لیتے اس کی قیمت ادا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے مجاہدین کو تحفے پیش کیے تو مجاہدین نے ان کی بھی قیمت ادا کی۔وہ کہتے تھے کہ مسلمان تحفے کو مالِ غنیمت سمجھتے ہیں اور کوئی مسلمان اپنے طورپر کوئی مالِ غنیمت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اس کے علاوہ صلح کے معاہدے کے بعد اسلام مالِ غنیمت کو جائز نہیں سمجھتا۔
ایسے مقامات بھی آئے جہاں کے لوگوں نے مسلمان فوج کا باقاعدہ استقبال کیا، مثلاً نومبر ۶۳۵ ء )رمضان ۱۴ ھ( مسلمان فوج حمص سے حما گئی تو شہری باہر آگئے اور مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ۔معرۃ النعمان کے شہریوں نے مسلمانوں کا استقبال اس طرح کیا کہ پہلے سازندے ساز بجاتے اور خوشی کے گیت گاتے باہر آئے۔ان کے پیچھے معززین آئے اور جزیہ پیش کرکے شہر ابو عبیدہؓ کے حوالے کر دیا۔اس کے بعد ان قصبوں اور شہروں کے کئی لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
…………bnb…………

’’مسلمان ہمارے جال میں آگئے ہیں۔‘‘ … شہنشاہِ ہرقل اپنے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔ … ’’میں سردیوں کے انتظار میں تھا۔ عرب کے یہ مسلمان اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں اور اونٹنی کا ہی دودھ پیتے ہیں۔ ریگستان کے ان باشندوں نے کبھی اتنی سردی نہیں دیکھی۔یہ سردی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس ملک کی سردی ان کے جوش اور جذبے کو منجمند کر دے گی۔پھر موسم سرما ختم ہونے تک مسلمان ختم ہو جائیں گے۔ہم انہیں بڑی آسانی سے شکست دیں گے۔ ان کے خیمے انہیں سردی سے نہیں بچا سکیں گے۔‘‘
ہرقل نے حکم دیا کہ حمص سے مسلمانوں کو بے دخل کر دیاجائے۔
کچھ دنوں بعد ابو عبیدہؓ کو اطلاع ملی کہ رومیوں کی کمک حمص پہنچ گئی ہے۔ رومیوں کی اس کارروائی کے بعد حمص کا معاہدہ ٹوٹ گیا تھا۔ ابو عبیدہؓ اور خالدؓکہیں اور تھے اور اطلا ع ملتے ہی وہ اپنے دستوں کو ساتھ لے کر حمص جا پہنچے۔ خالدؓ پہلے پہنچے تھے وہ حمص کے قریب گئے تو باہر رومی فوج لڑنے کیلئے تیار کھڑی تھی۔
خالدؓ نے اس فوج پر حملہ کر دیا۔ رومی پیچھے ہٹتے گئے اور قلعے میں داخل ہو کر انہوں نے دروازے بند کردیئے۔اس کے فوراً بعد ابو عبیدہؓ بھی اپنے دستوں کے ساتھ آن پہنچے۔
’’ابو سلیان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’یہ محاصرہ تیرا ہے اور تو اس کا سالار ہے۔‘‘
یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو ابوعبیدہؓ نے خالدؓ کو دیا۔خلیفۃ المسلمین عمرؓ کے احکام کے مطابق سالارِ اعلیٰ ابوعبیدہؓ ہی تھے۔
…………bnb…………

یہ دسمبر کا مہینہ تھا، سردی کا عروج شروع ہو چکا تھا ۔مسلمان اتنی زیادہ سردی کے عادی نہیں تھے۔ ان پر سردی بڑا برا اثر کر رہی تھی۔یہ سب سے بڑی وجہ تھی کہ محاصرہ طول پکڑتا گیا اس دوران خلیفۃ المسلمینؓ کا حکم آگیا اس کے تحت کچھ دستے عراق کو بھیجنے تھے۔
یہ دستے چلے گئے تو رومی سمجھے کہ مسلمان محاصرہ اٹھا رہے ہیں۔لیکن ایسا نہ ہوا۔رومی یہی توقع لیے قلعے میں بیٹھے رہے کہ مسلمان محاصرہ اٹھا لیں گے۔
مارچ ۶۳۶ ء کا مہینہ آگیا۔سردی کی شدت ختم ہو چکی تھی۔رومی سالار ہربیس روم کے شاہی خاندان کا آدمی تھا۔ اسے کسی کے حکم کی ضرورت نہیں تھی۔ اس نے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں سے کہا کہ سردی کا موسم گزر گیا ہے پیشتر ا س کے کہ مسلمانوں کو کمک مل جائے اور یہ سردی سے بھی سنبھل جائیں ان پر حملہ کر دیا جائے۔
چنانچہ ایک روز شہر کا ایک دروازہ کھلا اور پانچ ہزار نفری کی رومی فوج نے باہر آکر مسلمانوں کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے موجود تھا۔حملہ بڑا تیز اور شدید تھا، مسلمان اس حملے کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھے۔ا س کے علاوہ ان پر سردی کا بھی اثر تھا اس لئے وہ مقابلے میں جم نہ سکے۔پیچھے ہٹ کر وہ منظم ہوئے اور آگے بڑھے۔لیکن رومیوں کے دوسرے حملے نے انہیں پھر بکھیر دیا۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’کیا تو دیکھتا رہے گا کہ رومی فتح یاب ہو کر واپس قلعے میں چلے جائیں؟‘‘
خالدؓ تماشہ دیکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔لیکن وہ اس دروازے کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتے تھے جس کے سامنے وہ موجود تھے۔پھر بھی انہوں نے اپنا سوار دستہ ساتھ لیا اور رومیوں پر حملہ کر دیا رومیوں نے جم کر مقابلہ کیا اور سورج غروب ہو گیا۔رومی قلعے میں چلے گئے ان کی بہت سی لاشیں او ر شدید زخمی پیچھے رہ گئے۔
…………bnb…………

دوسرے دن ابوعبیدہؓ نے سالاروں کو بلایا۔
’’کیا تم نے خود محسوس نہیں کیا کہ کل رومیوں نے باہر آکر حملہ کیا تو ہمارے آدمی بے دلی سے لڑے؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے شکایت کے لہجے میں کہا۔ … ’’کیا ہم میں ایمان کی حرارت کم ہو گئی ہے؟ سردی سے صرف جسم ٹھنڈے ہوتے ہیں۔‘‘
’’سالارِ اعلیٰ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہارے آدمی بے دلی سے نہیں لڑے دراصل جن رومیوں نے حملہ کیا تھا وہ ان رومیوں سے زیادہ جرات و ہمت والے تھے جن سے ہم اب تک لڑتے رہے ہیں۔‘‘
’’پھر تو ہی بتا ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔ … ’’ہمیں اتنے لمبے محاصرے میں یہیں بیٹھے رہنا چاہیے؟‘‘
’’نہیں ابو عبیدہ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کل صبح ہم محاصرہ اٹھالیں گے۔‘‘
دوسرے سالاروں نے حیرت سے خالدؓکی طرف دیکھا۔
’’ہاں میرے دوستو!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کل ہم یہاں نہیں ہوں گے اور میری تجویز غور سے سن لو۔‘‘
خالدؓنے انہیں محاصرہ اٹھانے کے متعلق کچھ ہدایات دیں۔
اگلی صبح شہر کی دیوار کے اوپر سے آوازیں آنے لگیں۔ … ’’وہ جا رہے ہیں۔ محاصرہ اٹھ گیا ہے۔ وہ دیکھو مسلمان جا رہے ہیں۔‘‘
سالار ہربیس کو اطلاع ملی تو وہ دوڑتا ہوا دیوار پر آیا اس کے ساتھ بڑا پادری تھا۔
’’سردی نے اپنا کام کر دیا ہے۔‘‘ … ہربیس نے کہا۔ … ’’ان میں لڑنے کی ہمت نہیں رہی۔ میں انہیں زندہ نہیں جانے دوں گا۔ ان کے تعاقب میں جاؤں گا انہیں ختم کر کے آؤں گا۔‘‘
’’محترم سالار!‘‘ … پادری نے کہا۔ … ’’مجھے یہ مسلمانوں کی چال لگتی ہے۔ یہ منہ موڑنے والی قوم نہیں۔ وہ دیکھو۔ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو یہیں چھوڑ گئے ہیں۔‘‘
’’میں دیکھ رہا ہوں۔‘‘ … ہربیس نے کہا۔ … ’’اپنی بیویوں اور بچوں کو وہ ہمارے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ان کی حفاظت کیلئے انہوں نے بہت کم سپاہی پیچھے چھوڑے ہیں، وہ ساما ن باندھ رہے ہیں۔ لیکن انہیں ہم جانے نہیں دیں گے۔ میں پہلے ان کے تعاقب میں جاؤں گا جو حوصلہ ہار کر چلے گئے ہیں۔‘‘
ہربیس نے فوراً پانچ ہزار سوار تیار کیے، اور ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کے تعاقب میں روانہ ہو گیا۔ انہوں نے دو اڑھائی میل فاصلہ طے کر لیا تھا۔ جب رومی ان تک پہنچ گئے۔
…………bnb…………

جونہی ہربیس اپنے دستے کے ساتھ مسلمانوں کے قریب پہنچا۔ مسلمان اچانک دو حصوں میں بٹ گئے۔خالدؓ نے گزشتہ روز سالاروں کو یہی بتایا تھا کہ رومی ان کے تعاقب میں ضرور آئیں گے اور انہیں گھیرے میں لے کر ختم کرنا ہے۔اس کے مطابق مسلمان چلتے چلتے دو حصوں میں بٹ گئے۔ ایک حصہ دائیں کو ہو کر پیچھے کو مڑا، اور دوسرا بائیں طرف ہو کر گھوم گیا۔
رومی ایسی صورتِ حال کیلئے تیار نہیں تھے وہ بوکھلا گئے۔ مسلمانوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا، اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کیلئے کچھ مجاہدین کو پیچھے چھوڑ آنا بھی اسی دھوکے کا ایک حصہ تھا۔ رومی پیچھے کو بھاگے تو یہی مجاہدین جو عورتوں اور بچوں کے ساتھ تھے، رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔ پھر انہوں نے رومیوں کی پسپائی کا راستہ روک لیا۔
ایک اور سالار معاذؓ بن جبل خالدؓ کی پہلے سے دی ہوئی ہدایات کے مطابق پانچ سو سوار ساتھی لے کر حمص کے راستے میں آگئے تاکہ کوئی رومی شہر کی طرف نہ آسکے۔
رومی اتنی جلدی بھاگنے والے نہیں تھے لیکن وہ مجاہدین کے پھندے میں آگئے تھے۔ وہ تازہ دم تھے۔ کچھ اپنی روایات کے مطابق کچھ اپنی جانیں بچانے کیلئے وہ بے جگری سے لڑ رہے تھے۔
خالدؓان کے سالار ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے ، ان کی تلوار سے خون ٹپک رہا تھا ، ان کے راستے میں جو آتا تھا کٹتا جاتا تھا ، آخر وہ انہیں نظر آگیا۔
’’میں ہوں ابنِ ولید!‘‘ … خالدؓ نے للکار کر کہا۔ … ’’فارسیوں کا قاتل ابن الولید … رومیوں کا قاتل ابن الولید ــــــــ!‘‘
ہربیس نامی گرامی جنگجو تھا۔وہ خالدؓکے مقابلے کیلئے بڑھا لیکن گھوڑے سے اتر آیا۔خالدؓ بھی گھوڑے سے اترے اور اس کی طرف بڑھے لیکن ایک رومی دونوں کے درمیان آگیا۔تین چار مؤرخوں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے لیکن اس رومی کا نام نہیں لکھا، اتنا ہی لکھا ہے کہ اس کا جسم پہلوانوں جیسا تھا اور وہ شیرکی طرح گرج کر لڑا کرتا تھا، رومی زبان میں وہ ’’شیر کی مانند دہاڑنے والے‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔
تاریخ میں یہ واقعہ اس طرح آیا ہے کہ اک رومی اپنے سالار ہربیس کو پیچھے ہٹا کر خالدؓ کے مقابلے میں آیا۔دو تین پیترے دونوں نے بدلے اور خالدؓنے تلوار کا وار کیا، تلوار رومی کی آہنی خودپر پڑی۔ خود اتنی مضبوط اور وار اتنا زوردار تھا کہ خالدؓ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ ان کے ہاتھ صرف دستہ رہ گیا۔اب خالدؓ خالی ہاتھ تھے اور رومی پہلوان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ خالدؓ اپنے محافظوں کی طرف آنے کی کوشش کرتے تھے کہ ان سے تلوار لے لیں مگر رومی درندوں کی طرح غراتا، دھاڑتا اور خالدؓ کے آگے ہو جاتا تھا تاکہ وہ دوسری تلوار نہ لے سکیں۔
ایک محافظ نے خالدؓ کی طرف تلوار پھینکی لیکن خالدؓ سے پہلے رومی تلوار تک پہنچ گیا اور تلوار پرے پھینک دی۔ خالدؓ کا بچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ رومی نے ان پر تابڑ توڑ وار کرنے شروع کر دیئے ۔ خالدؓ اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتے رہے۔ رومی نے ایک وار دائیں سے بائیں کو کیا جسے خالدؓ کی گردن یا اس سے ذرا نیچے پڑنا چاہیے تھالیکن خالدؓ بڑی پھرتی سے بیٹھ گئے۔
رومی کا یہ زور دار وار خالی گیا تو اپنے ہی زور سے وہ گھوم گیا۔ خالدؓ اچھل کر اس پر جھپٹے۔ رومی پلک جھپکتے پھر گھوم گیا اور خالدؓ کے بازوؤں کے شکنجے میں آگیا۔ اب صورت یہ تھی کہ دونوں کے سینے ملے ہوئے تھے اور رومی خالدؓ کے بازوؤں میں تھا۔
خالدؓ نے بازوؤں کو دبانا اور شکنجہ سخت کرنا شروع کر دیا۔ رومی خالدؓکی گرفت سے نکلنے کے لیے زور لگا رہا تھا لیکن خالدؓ کی گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی، اور وہ اس قدر زور لگا رہے تھے کہ خون ان کے چہرے میں آگیا، اور چہرا گہرا لال ہو گیا۔
رومی پہلوان کی آنکھیں باہر کو آنے لگیں۔ اس کی سانسیں رکنے لگیں اور چہرے پر تکلیف کا ایسا تاثر تھا کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ رومی پہلوان کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں۔ رومی اور زیادہ تڑپنے لگا۔ خالدؓ اور زیادہ زور سے اپنے بازوؤں کے شکنجے کو تنگ کرتے گئے۔ رومی کی پسلیاں ٹوٹتی گئیں اور اس کا تڑپنا ختم ہو گیا حتیٰ کہ اس کا جسم بے جان ہو گیا۔
خالدؓ نے اسے چھوڑا تو وہ گر پڑا۔ وہ مر چکا تھا۔ خالدؓ نے اس رومی کی تلوار اٹھا لی اور ہربیس کو للکارا لیکن ہر بیس اپنے پہلوان کا انجام دیکھ کر وہاں سے کھسک گیا، خالدؓ نے گھوڑے پر سوار ہو کر رومی پہلوان کی تلوار بلند کرکے لہرائی اور نعرہ لگایا۔
اس مقابلے کے دوران رومیوں کا قتلِ عام جاری رہا۔ ابو عبیدہؓ کو پتا چلا کہ خالدؓنے اس رومی پہلوان کو کس طرح ہلاک کیا ہے تو وہ دوڑے آئے۔
’’خدا کی قسم ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے بڑے مسرور لہجے میں کہا۔ … ’’تو نے جو کہا تھا کر دکھایا ہے۔ تو نے ان کی کمر توڑ دی ہے۔‘‘
یہ بات اس طرح ہوئی تھی کہ خالدؓ نے جب گذشتہ روز محاصرہ اٹھا کر واپس جانے کی تجویز پیش کی تھی تو ابو عبیدہؓ اور دوسرے سالاروں نے اس تجویز کو پسند نہیں کیا تھا۔ خالدؓنے انہیں بتایا کہ انہوں نے کیا سوچا ہے ، پھر بھی ابو عبیدہؓ محاصرہ اٹھانے کے حق میں نہیں تھے ۔ تب خالدؓ نے کہا تھا۔ … ’’میری تجویز پر عمل کریں ، میں ان کی ہڈیاں توڑ دوں گا۔ ان کی کمر توڑ دوں گا۔‘‘
خالدؓ نے صرف ایک پہلوان کی نہیں بلکہ رومی فوج کی ہڈیاں توڑ دی تھیں۔
مارچ ۶۳۶ء (صفر ۱۵ھ) مسلمان فاتح کی حیثیت سے حمص میں داخل ہوئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages